ریڈیو پاکستان
ریڈیو اس خطے میں انڈیا کی 1947 میں تقسیم سے قبل موجود تھا۔ قیام پاکستان سے قبل یہ ’آل انڈیا ریڈیو‘ تھا جس سے پاکستان براڈکاسنگ سروس نے بطور ریڈیو پاکستان جنم لیا تھا۔ ریڈیو پاکستان نے حکومتی ادارے کی طرح 1973 تک کام کیا۔ پاکستان براڈکاسنگ کارپوریشن (پی بی سی) ایکٹ نے اسے قانونی ادارہ بنا دیا۔ پی سی بی کو بورڈ آف ڈاریکٹرز دیکھتا ہے جسے وفاقی حکومت تعینات کرتی ہے۔ وفاقی سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات اس بورڈ کی بطور چیرمین سربراہی کرتا ہے۔
سامعین کا حصہ
3.30%
ملکیت کی نوعیت
ریاستی ملکیت
جغرافیائی کوریج
قومی
رابطے کی نوعیت
مفت مواد
میڈیا کمپنیاں/گروپس
پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن
ملکیت کا ڈھانچہ
پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن (پی بی سی)ریڈیو پاکستان (اے ایم فریکیونسی) اپنے کئی دیگر ریڈیو سٹیسنوں کے ساتھ چلاتی ہے۔ پی بی سی کے 1973 کے ایکٹ کے تحت اسے گیارہ رکنی بورڈ جسے وفاقی حکومت تعینات کرتی ہے جن میں بیشتر سرکاری اہلکار شامل ہوتے ہیں پی بی سی کی نگرانی کرتی ہے۔ کارپوریشن کے روزانہ کے معملات کو وفاقی حکومت کی جانب سے تعینات کئے گئے ڈائریکٹر جنرل دیکھتے ہیں۔
ووٹ کا حق
معلومات موجود نہیں
انفرادی مالک
عام معلومات
قیام کا سال
1947
بانی کے جڑے ہوئے مفادات
نے ریڈیو پاکستان قائم کیا جو 1973 تک ریاستی ادارہ رہا، جب پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن (پی بی سی) نے اسے قانونی شکل دے دی۔ پی سی بی کی نگرانی ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کرتا ہے، جسے وفاقی حکومت تعینات کرتی ہے۔ وزارت اطلاعات اور نشریات کے سیکرٹری اس بورڈ کی بحثیت چیرمین قیادت کرتے ہیں۔
سی ای او کے جڑے ہوئے مفادات
سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات ڈائریکٹر جنرل پی بی سی کا عہدہ بھی رکھتے ہیں لہذا ایف ایم 101 کی سربراہی بھی کرتے ہیں۔ سی ای او کے کوئی مطلقہ مفادات نہیں ہیں کیونکہ وہ ڈیپوٹیشن پر ایک بیوروکریٹ ہیں۔
مدیر اعلی کے جڑے ہوئے مفادات
سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات ڈائریکٹر جنرل پی بی سی کا عہدہ بھی رکھتے ہیں لہذا ایف ایم 101 کی سربراہی بھی کرتے ہیں۔ سی ای او کے کوئی مطلقہ مفادات نہیں ہیں کیونکہ وہ ڈیپوٹیشن پر ایک بیوروکریٹ ہیں۔
دیگر اہم لوگوں کے جڑے ہوئے مفادات
سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات ڈائریکٹر جنرل پی بی سی کا عہدہ بھی رکھتے ہیں لہذا ایف ایم 101 کی سربراہی بھی کرتے ہیں۔ سی ای او کے کوئی مطلقہ مفادات نہیں ہیں کیونکہ وہ ڈیپوٹیشن پر ایک بیوروکریٹ ہیں۔
رابطہ
شفقت جلیل| سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات ڈائریکٹر جنرل پی بی سی کا عہدہ بھی رکھتے ہیں لہذا ایف ایم 101 کی سربراہی بھی کرتے ہیں۔ سی ای او کے کوئی مطلقہ مفادات نہیں ہیں کیونکہ وہ ڈیپوٹیشن پر ایک بیوروکریٹ ہیں۔
معاشی معلومات
آمدن (ملین ڈالرز میں)
معلومات دستیاب نہیں
آپریٹنگ منافع (ملین ڈالرز میں)
معلومات دستیاب نہیں
اشتہارات (مجموعی فنڈنگ کا فیصدی)
معلومات دستیاب نہیں
مارکیٹ میں حصہ
معلومات دستیاب نہیں
مزید معلومات
میٹا ڈیٹا
آمدن اور منافع کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے درخواست پی بی سی کو 23 جنوری 2019 کو ارسال کی گئی لیکن اپریل 2019 کے اواخر تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ آر ٹی آئی کمیشن کو ایک شکایت 4 مارچ 2019 کو روانہ کی تھی لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ یہاں دی گئی معلومات پی بی سی کی ویب سائٹ سے لی گئی ہیں۔ تاہم ویب سائٹ پی بی سی کے اخراجات اور آمدن کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتی ہے۔
پی سی بی کا بورڈ ماسوائے میڈیا اور مینجمنٹ سے جڑی چار اہم شخصیات چاروں
سے وفاقی حکومت مقرر کرتی ہے باقی سب سرکاری افسران ہیں۔ حکومت کو اختیار ہے کہ وہ ان افسران کو کسی بھی وقت تبادلہ کرسکتی ہے۔ اسی لیے بورڈ کے اراکین کا تعرف ان کے عہدوں سے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چار (غیرسرکاری) اہم شخصیات کی بطور بورڈ رکن تفصیلات دستیاب نہیں ہیں