ضابطہ کاری کا عجیب لائحہ عمل میڈیا کے منظرنامہ کو دھندلاتا ہے
پاکستان کے میڈیا کے شعبہ کوچلانے والے ریگولیٹری فریم ورک نے میڈیا کا ایک ایسا منظرنامہ پیش کیا ہے جوریگولیٹری استثنیٰ کا حامل ہے، اس شعبہ کی پیشہ ورانہ ترقی کو روکتا ہے، مارکیٹ کے منصفانہ عوامل کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور صرف شفافیت اور احتساب سے روکناچاہتاہے۔ یہ ملکیت میں تنوع کو محدود کرتا ہے اور اسے سیاسی کمزوریوں اورمیڈیا مارکیٹ کے طاقتورجوڑتوڑ کیلئے کھلا چھوڑتا ہے۔
سازگارماحول کی بجائے مختلف اداروں ( نجی بمقابلہ سرکاری) کیلئے مختلف قواعد وضوابط
پاکستان کی میڈیا ریگولیٹری کا فریم ورک اپنی انتہائی نوعیت، ڈھانچے، اختیار اور عملدرآمد کے اعتباد سے مخصوص ہے۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) جس کے پاس ملک میں ریڈٰیو، ٹی وی اور الیکٹرانک میڈیا کی تقسیم کی خدمات کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار ہے، صرف نجی شعبہ کے میڈیا کی نگرانی کرتا ہے۔ پیمرا آرڈیننس میں حکومت کے زیرکنٹرول سرکاری شعبہ کے الیکٹرانک میڈیا کے موجودہ اور مستقبل کے آپریشنز ریگولیٹرکی نگرانی میں شامل نہیں ہیں۔اس کے نتیجہ میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن(PBC)، پاکستان ٹیلی وژن(PTV) اور شالیمار ریکارڈنگ اینڈ براڈکاسٹنگ کمپنی کسی ریگولیٹرکی نگرانی کے بغیراپنا آپریشن چلانے اور اسے توسیع دینے میں آزاد ہیں۔
سرکاری میڈٰیاکے ادارے نجی شعبہ کے میڈیا کی نسبت مکمل طور پر مختلف قواعد وضوابط کے تحت چل رہے ہیں، سرکاری میڈیا کو پیمرا کی نظر سے دور رکھا گیا ہے جوحکومت کونجی سیکٹر کے ریگولیٹ کئے جانے والے میڈیا پر غیرمعمولی فائدہ دیتا ہے، مارکیٹ میں مقابلے کے ماحول کو خراب کرتاہے اور سرکاری میڈیا کی مدد کرتا ہے تاکہ مارکیٹ کو آزادمیڈیا سے روکا جائے۔ مزید یہ کہ نجی شعبہ کامیڈیا جو زیادہ تر سرکاری اشتہارات پر انحصار کرتا ہے، کسی ضابطہ کاری اقدامات کے بغیرریگولیشن دائرہ کارمیں نہ آنے والے سرکاری میڈیا کی توسیع کے ذریعہ ادارتی جوڑتوڑ کیلئے اکثر کمزور ہے۔لہٰذا مارکیٹ میں مختلف اداروں کیلئے مختلف قواعد وضوابط سیکٹر میں سازگار ماحول کیخلاف ہیں اور مارکیٹ کے قواعد وضوابط کے مقصد کی شکست ہے۔
انڈسٹری کو سہولت دینے اورفعال میڈیا ماحول کی مدد کرنے کی بجائے میڈیا ریگولیٹرز کی جانب سے مواد ریگولیٹرز پر توجہ
اصولی طورپرسیکٹرکےحوالے سے مخصوص ریگولیٹرزجیسے ٹی وی، ریڈیواورکیبل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والا پیمرا، انٹرنیٹ اور ٹیلی کام سیکٹرزکوریگولیٹ کرنے والی پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (PTA) اور پرنٹ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والی پریس کونسل آف پاکستان (PCP) کو چاہیے کہ وہ میڈیا سیکٹر کے تمام متعلقہ اداروں کیلئے فعال ماحول بنانے میں سہولت دیں۔ انہیں یہ بھی اختیار ہے کہ وہ مارکیٹ میں منصفانہ مقابلے کے ماحول کو یقینی بنائیں اورسیکٹر میں معیاری خدمات کیلئے صارفین کو متعدد آپشنز فراہم کریں۔ کم سے کم ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مارکیٹ میں کسی ایک یا چند کرداروں کی جانب سے ملکیت کاغیرمعمولی ارتکاز نہیں ہوگا۔
تاہم ایم اوایم کے ڈیٹا کے تجزیہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں نجی میڈیا کے سیکٹر میں ملکیت کا انتہائی ارتکاز چند ہاتھوں میں ہے۔ مارکیٹ کے چارمیڈیا اداروں کی سامعین وناظرین پرتسلط کے حوالے سے ایک سے زیادہ اداروں کی بے لگام ملکیت کا60% سے زیادہ مارکیٹ کنٹرول ٹاپ کے 40 میڈیا اداروں کے درمیان تقسیم کردیاگیاہے۔ خاص طور پر پیمرا مارکیٹ میں سازگار ماحول اور منصفانہ مقابلے کو یقینی بنانے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔
اس کے برعکس انڈسٹری کو ریگولیٹ کرنے کے باوجود ریگولیٹرزنے روایتی طور پر ریاستی اداروں اور حکومتوں کی جانب سے مواد کی نگرانی اور میڈیا کو سینسر کرنے پر توجہ دی۔ اس حقیقیت سے یہ بات عیاں ہے کہ پیمرا نے 2017 سے لے کر اب تک ٹی وی چینلز کو قابل اعتراض مواد نشر کرنے پر سیکڑوں اظہار وجوہ کے نوٹس بھجوائے اور جرمانے بھی عائد کئے تاہم اتھارٹی نے بڑھتے ہوئے میڈیا کی ملکیت کے غیرمعمولی ارتکاز اور مارکیٹ میں اجارہ داری کے تسلط پر کوئی نوٹس نہیں کیا۔
اس طرح ٹیلی کام شعبے کاریگولیٹرپی ٹی اے ملک میں موبائل فون کمپنیوں کے ختم شدہ لائسنسوں کی معیاد کی تجدید کا عمل شروع اور تیزکرنے کی بجائے ویب سائٹس اور آن لائن مواد کو بلاک کرنے میں زیادہ دکھائی نظرآتاہے۔ دوسری جانب پرنٹ میڈیا کا ریگولیٹرپی سی پی موادکی ریگولیشن اور سینسرشپ پر توجہ مرکوز کرنے کے حوالے سے مشہور ہے لیکن انڈسٹری کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ہرگزکوئی اقدام نہیں کیا۔
آزادی دینے کی بجائے حکومت کی جانب سے انتہائی اثر ورسوخ
خودمختاری اور آزادی ایک موثر ریگولیٹر کی ضروری خصوصیات ہیں۔ ریگولیٹری اتھارٹی کو ریاستی یا انڈسٹری کی جانب سے کسی بھی ریگولیٹری اقدام سے مالی طور پر خودمختار اور آزادہونا چاہیے تاہم یہ بات دلچسپ ہے کہ پاکستان میں میڈٰیا کے دو ریگولیٹر پیمرا اور پی ٹی اے کو گزشتہ پانچ برسوں میں حکومت سے بڑی آمدن ملی ہے۔ مثال کے طور پر مالی سال 2016-17 میں پی ٹی اے نے اسی سال کی آڈٹ رپورٹ میں اپنا مالی بجٹ 30.9 ارب روپے(292.8 ملین ڈالر) ظاہر کیا ہے۔ پیمرا کو اسی عرصہ کے دوران816.9 ملین روپے (8.1 ملین ڈالر) ملے۔ مارکیٹ کی بجائے حکومت سے انہیں اس قدر زیادہ بجٹ ملنا انہیں سرکاری کنٹرول میں کمزور بناتے ہیں۔
اس کے باوجود لائسنس فیس سمیت برسوں سے ملنے والے خطیر رقم کے باوجود یہ ریگولیٹر روایتی طور پرحکومتی اثرورسوخ کے سامنے خاموش ہیں بجائے اس کے کہ ابھرتے ہوئے میڈیا سیکٹر کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے بارے میں بات کی جائے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت ان کے بورڈز کے ارکان کی تعیناتی میں صوابدیدی اختیارات رکھتی ہے۔ ان تعیناتیوں پر پارلیمانی نظر رکھنے اورجموری عمل کیلئے کوئی قانون نہیں ہے جس کے نتیجہ میں ان ریگولیٹرز کے بورڈز کے زیادہ تر ممبران حکومت کی جانب سے منتخب کردہ ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ وفاقی حکومت کی ہدایات پر عمل کرنا ان دونوں ریگولیٹرزکی قانونی ذمہ داری بھی ہے۔
پرنٹ میڈیا کا ریگولیٹر پی سی پی کا کیس بالکل مختلف ہے کیونکہ چیئرمین کے علاوہ اس کے بورڈ کے ممبران سیکٹر سے آتے ہیں تاہم پی سی پی اخبارات پراپنی اتھارٹی ثابت کرنے کیلئے کوشاں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ:
- محدو وسائل اور فنڈز،2016-17 میں کونسل کیلئے مختص رقم 40 ملین روپے (4 لاکھ ڈالر) رکھی گئی۔
- اخبارات انڈسٹری کے لائسنسوں کے اجرا میں کوئی کردار نہیں۔
اس ساری صورتحال نے ان ریگولیٹرز کو غیرموثر بنا دیا ہے یا ریاست کے زیراثرریگولیٹری نظام کی بہترین مثال ہے۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ اہم ہوجاتی ہے جب پوری مارکیٹ کو غیرمعمولی میڈیا ملکیت کے ارتکاز اور ایک سے زیادہ اداروں کی ملکیت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ زیادہ اداروں کی بجائے چند اداروں کو کنٹرول کرنا آسان ہے، لہٰذا ایک سے زیادہ اداروں کی ملکیت اور ریگولیٹری نظام پر سیاست کے کنٹرول نے معلومات اور آزادی اظہار پر حکومت کے کنٹرول کو خاصا بڑھا دیا ہے۔
غیراعلانیہ، غیرقانونی اور پوشیدہ میڈیا
اصولی طور پرپاکستان میں پورے میڈیا کو کسی استثنیٰ کے بغیر آزاد اور خودمختار ریگولیٹری فریم ورک کے تحت ہر صورت ریگولیٹ کیا جانا چاہیے تاہم حکومت کے تحت چلنے والا سرکاری میڈیا اور پیمرا کے ذریعہ ریگولیٹ کیا جانے والا نجی الیکٹرانک میڈیاکے ساتھ پاکستان میں میڈیا کا منظرنامہ غیرالعمایہ اور غیرقانونی میڈیا کے بڑے قدموں کے نشان کی موجودگی بتا رہاہے۔اس کی ایک مثال ایف ایم 89.4 ہے جسے نہ تو پیمرا کی جانب سے لائسنس جاری کیا گیا اور نہ ہی یہ ریاست کی ملکیت ریڈیو پاکستان کو چلانے والے ادارے پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن (PBC) کی جانب سے چلایا جا رہا ہے یا اس کی ملکیت ہے۔
غیراعلامیہ اور غیرقانونی میڈیا کی موجودگی بظاہرسیکیورٹٰی اسٹیبلشمنٹ کی ملکیت لگتا ہے لیکن کسی نے اس کی باضابطہ طور پر تصدیق نہیں کی ہے کہ نہ صرف (نجی اور سرکاری اشتہارات کی مدمیں) ایک بڑے حصہ کے ذٰریعہ آمدن کومخفی رکھا جارہاہے بلکہ قانونی قواعدوضوابط کی بھی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔
اگرچہ ریگولیٹری قوانین سرکاری میڈٰیا کو نگرانی سے استثنیٰ دیتے ہیں، ریگولیٹر اس غیراعلانیہ اور غیرقانونی میڈیا جو سرکاری میڈٰیا ریڈیوپاکستان اور پی ٹی وی کے ساتھ لنک ہوئے بغیر پوشیدہ طورپر چلایا جارہاہے، تک اپنے ریگولیٹری دائرہ کار کو بڑھانے میں ناکام ہے۔ نتیجتاً شناخت کا نہ ہونا پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت دیئے گئے اطلاعات کے حق کوسلب کرنا ہے۔