جیونیوز
جیو نیوز پاکستان میں خبروں اور حالات حاضرہ کے دن رات چلنے والے ٹی وی چینلز میں مارکیٹ لیڈر ہے، اس کی نشریات کاآغاز اگست 2002 میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے نشریات پرپابندی ہٹانے کے فوری بعد شروع کیاگیا جس سے سرکاری ٹی وی کی عشروں پر محیط اجارہ داری ختم ہوگئی۔
جیو نیوز کی نشریات کاآگاز پانچ رکنی ٹیم نے ایک ہوٹل کے کمرے سے کیا، نیویارک ٹائمز نے اسے پاکستانی میڈٰیا کے شعبہ میں ڈرائیور کی تبدیلی قراردیا۔
جیو نیوز نے بھی سماجی طور پر قدامت پسند، متوسط طبقے کی حوصلہ افزائی اور مارکیٹ کے حوالے سے سوچ کو جاری رکھا جو جنگ گروپ کا ٹریڈ مارک بن چکا ہے، انہوں نے ساتھ ساتھ کئی متنازعہ پوزیشنز بھی لی۔ امن کی آشا ایک ایسااقدام تھا جسے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے فروغ کیلئے ٹائمز آف انڈیا میڈیا گروپ کے ساتھ آگے بڑھایا۔
ایک اور بڑا تنازع اس وقت کھڑ ہوگیاجب جیو نیوز نیٹ ورک اور جنگ گروپ نے 2007
میں میر شکیل الرحمن کا حکومت کے ساتھ ایک اور ٹاکرا پڑا، اس دفعہ صدر پرویز مشرف کی سربراہی میں فوجی حکومت کی مخالفت کی گئی، نتیجتاً میر فیملی کی ملکیت نیوز چینل جیو نیوز کی نشریات مختصر عرصہ کیلئے روک دی گئیں اور ایک ٹاک شو کے سینئر میزبان حامد میر کے پروگرام پر پابندی عائد کردی گئی۔
2008 میں مشرف کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد سے میر شکیل الرحمن اور ان کے گروپ کونوازشریف کی پارٹی مسلم لیگ ن کی حمایت حاصل ہوگئی اور نوازشریف کے حق میں خبریں چلانے پر اعلیٰ عدلیہ کی ناراضگی مول لی۔ روزنامہ جنگ اور اس سے منسلک میڈیا کے اداروں نے بھی سیاست میں فوج کی مداخلت کی کھل کر تنقید کی، یہ کڑی تنقید اس وقت زیادہ ہوگئی جب جیو نیوز نے فوج کی سربراہی میں خفیہ ادارے کے سربراہ پر اپریل 2016 میں چینل کے بہترین ٹاک شو کے میزبان حامد میر پر فائرنگ کرکے انہیں زخمی کرنے کاالزام لگا دیا، جس کے نتیجہ میں گروپ کے اخبار کی سرکولیشن متعدد بار روکی گئی اور اس کے ٹی وی چینل کی نشریات غائب کردی گئیں اور اسے آخری نمبروں پر دھکیل دیاگیا۔
سامعین کا حصہ
24.00%
ملکیت کی نوعیت
نجی
جغرافیائی کوریج
بین الاقوامی
رابطے کی نوعیت
مفت مواد
میڈیا کمپنیاں/گروپس
جنگ گروپ
ملکیت کا ڈھانچہ
جیونیوزانڈیپنڈنٹ میڈٰیا کارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈ کی ملکیت ہے،75% حصص کے مالک میر شکیل الرحمن ہیں، ان کی اہلیہ ارم رحمن کے پاس 20%حصص جبکہ باقی 5% حصص منصور رحمن کے ہیں جو جنگ گروپ کے ساتھ بزنس ایگزیکٹو کے طور پر کام کررہے ہیں۔
جے اینڈ ایس انٹرپرائزپرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی میں سب سے بڑٰا دستاویز مقروضیت کاحامل ہے جو96% فیصد بنتے ہیں، جنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے پاس 2.7% اور پاکستان انک اینڈ پیکجنگ انڈسٹریز پرائیویٹ لمیٹڈکے پاس1.3% دستاویز مقروضیت ہے۔
مظفر مصطفیٰ خان، محفوظ مصطفیٰ خان اور مکرم مصطفیٰ خان جے اینڈ ایس انٹرپرائزپرائیویٹ لمیٹڈمیں 33 ، 33 فیصد برابر حصہ دارہیں، میر شکیل الرحمن 75.34% فیصد، میر جاوید رحمن 24.65% اور منصور رحمن 0.01%جے اینڈ ایس انٹرپرائزپرائیویٹ لمیٹڈ کی دستاویزمقروضیت کے حامل ہیں۔
میر خلیل الرحمن اور ان کی اہلیہ محمودہ خلیل الرحمن جنگ پرائیویٹ لمیٹڈکے حصص مالکان میں شامل ہیں جو بالترتیب 83.33% اور16.67% بنتے ہیں۔
جنگ پرائیویٹ لمیٹڈ میں میرشکیل الرحمن (73.20%)، میرجاوید رحمن (22.48%) اور منصور رحمن (4.32%) دستاویز مقروضیت کے حامل ہیں۔
پاکستان انک اینڈ پیکجنگ انڈسٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ میں میر خلیل الرحمن ، میر شکیل الرحمن اورمیر جاوید رحمن 33، 33 فیصد حصص کے مالک ہیں، کمپنی میرجاوید رحمن (24.24%)، میر شکیل الرحمن (57.58%) اور منصور رحمن (18.18%) دستاویز مقروضیت کے حامل ہیں۔
میر شکیل الرحمن اور ان کی فیملی حصص اور دستاویز مقروضیت کے ذریعہ انڈیپینڈنٹ میڈیا کارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈڈ کا 100 فیصدکنٹرول رکھتے ہیں۔
ووٹ کا حق
معلومات دستیاب نہیں
انفرادی مالک
عام معلومات
قیام کا سال
2002
بانی کے جڑے ہوئے مفادات
جنگ گروپ کے بانی میر خلیل الرحمن کے دوصاحبزادوں میں چھوٹے بیٹے ہیں جو عمومی طور پر ایم ایس آر کے نام سے جانے جاتے ہیں، انہوں نے اپنے والد کے اخبار کی اشاعت کے کاروبار کو گزشتہ چالیس برسوں میں اربوں روہے کے میڈیا ادارے میں تبدیل کردیا ہے اور پاکستان کا سب سے بڑا اور انتہائی میڈیا ٹائیکون بن رہاہے۔
میر شکیل الرحمن جنہوں نے اپنا زیادہ تر وقت دبئی میں گزارا، پاکستان میں آن لائن نیوز کا پلیٹ فارم مہیا کرنے والے اولین افراد میں شمارہوتے ہیں۔1996 میں روزنامہ جنگ ملک کا پہلا اخبار بن گیاجس کا اپنا انٹرنیٹ ایڈیشن تھا،اس وقت سے یہ ایڈیشن اردو زبان میں مکمل نیوز ویب سائٹ میں تبدیل کردیا گیا اورخبروں کے آن لائن ذرائع میں ملک کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹ بن گئی ہے۔اس وقت میر شکیل الرحمن اور ان کی فیملی کی ملکیت تمام نیوز پلیٹ فارم کی اپنی ویب سائٹس ہیںجن میں سے ہر ایک ویب سائٹ کے بڑی مقدار میں قارئین وناظرین ہیں۔
انہوں نے ٹیلی وژن کی صنعت میں بھی اسی اولین جذبے کامظاہرہ کیا اورکئی ٹی وی چینلز قائم کئے۔ان میں پاکستان کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے اردو چینل جیو نیوز اور ملک کے نوجوانوں کے واحد چینل آگ (جو 2002 میں اپنے آغاز کے دو برس بعد ہی بند کرنا پڑا) شامل ہیں۔
میر شکیل الرحمن کی خبروں کی صنعت میں پہلی آؐمد اس وقت ہوئی جب وہ 1970 کے آخر میں اپنی تعلیم مکمل کرکے وطن لوٹے، تو انہیں شام کے انگریزی اخبار ڈیلی نیوز کو چلانا تھا۔انہوں نے اس کے انتظامی امور سنبھالنے کے بعد جلد ہی ڈیلی نیوز کو کراچی کا شام کا سب سے بڑا فروخت ہونے والا اخبار بنادیا۔
وہ اخباری مالکان کی نمائندہ تنظیم آؒل پاکستان نیوزپیپرزسوسائٹی کے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں،انہوں نے پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (ُُPBA) کی تشکیل میں کلیدی کرداراداکیا جو پاکستان میں ٹیلی وژن چینلز اور ریڈیو اسٹیشن چلانے والے اداروں اور افراد کی نمائندہ تنظیم ہے۔
ان کے والد سیاست میں براہ راست ملوث ہونے سے بہت زیادہ کتراتے تھے لیکن میر شکیل الرحمن نے سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں حتیٰ کہ حکومتوں سے ٹکر لینے سے ہچکچاہٹ کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا،1990 کے آخر میں اس وقت کی سویلین حکومت کے وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ان کی حکومت کی تنقیدی کوریج پرشدید تنازع ہوگیا اور روزنامہ جنگ اور اس کی دیگر مطبوعات پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔میر شکیل الرحمن اور ملیحہ لودھی جو اس وقت دی نیوز انٹرنیشنل کی ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کررہی تھیں اور جنگ گروپ کے بعض دوسرے ارکان اورعملے کونوازشریف کو ناپسند خبریں اور نظریات شائع کرنے پرغداری کے الزامات کاسامنا کرناپڑا۔
سی ای او کے جڑے ہوئے مفادات
ڈائریکٹر و چیف ایگزیکٹو آفیسر، 1981 میں پیدا ہوئے، وہ میر شکیل الرحمن کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں، انہوں نے 2000 میں امریکہ کے ایک کالج سے بزنس ڈگری حاصل کی اور انتہائی کم عمر 21 برس میں جیو نیوز کے بانی چیف ایگزیکٹوآفیسر بن گئے۔
مدیر اعلی کے جڑے ہوئے مفادات
ایک سد بہار صحافی ہیں جوجیو نیوز، جیو انٹرٹینمنٹ اور جیو سپر ٹیلی وژن چینلزپر چلنے والے مواد کو دیکھتے ہیں۔
عمران اسلم
دیگر اہم لوگوں کے جڑے ہوئے مفادات
1990 میں کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کی اورانگریزی اخبار دی نیوز انٹرنیشنل کے ساتھ رپورٹر کی حیثیت سے اپنا کیریئرشروع کردیا، جلد ہی انہوں نے ماہانہ انگریزی جریدہ ہیرالڈ میں شمولیت اختیار کرلی۔
اظہرعباس ان پاکستانی صحافیوں کے پہلے بیچ میں سے ہیں جنہوں نے 1990 کے آخر میں مقامی نجی ٹی وی کے پروڈکشن ہائوس کیلئے کام شروع کیا۔یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے کراچی کے کچھ صحافیوں کے ساتھ ایک نجی کمپنی کی جانب سے بنائے گئے حالات حاضرہ کاپروگرام پاکستان بزنس اپ ڈیٹ شروع کیا لیکن یہ پروگرام سرکاری ٹی وی پر چلایا گیا، انہوں نے ایم امریکی بزنس نیوز چینل سی این بی سی میں کئی سال پاکستان کیلئے نامہ نگار کی حیثیت سے گزارا۔
جب جیو نیوز قائم کیاجارہاتھا تو اظہر عباس اس کی بانی ادارتی ٹیم کاحصہ بن گئے اور جلد ہی ترقی کرتے ہوئے اس کے مینجنگ ڈائریکٹر بن گئے۔ دسمبر2006 میں انہوں نے جیونیوز چھوڑ دیا اورڈان میڈیا گروپ کے انگریزی زبان کے چینل ڈان نیوز میں چلے گئے ، انہوں نے 2009 میں ڈان نیوز چھوڑا اور دوبارہ جیو ٹیلی وژن نیٹ ورک میں شامل ہوگئے، انہوں نے 2013 میں ہھر اسعتفیٰ دیا اور بول ٹی وی نیٹ ورک کاحصہ بن گئے۔
یہ نیٹ ورک ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی ایگزیکٹ کا تھا کو بعد میں مبینہ طور ہر منی لانڈرنگ اور جعلی ڈگریوں کے اسکینڈل کاحصہ نکلی، ان الزامات کے بعد جب ایگزیکٹ انتظامیہ کیخلاف مقدمات درج ہونا شروع ہوئے اور 2015 میں اس کے اعلیٰ حکام کو گرفتار کرلیاگیا،اظہر عباس نے بول ٹی وی نیٹ ورک کوخیر آباد کہا اور ایک بار پھر جیو ٹی وی نیٹ ورک کی ٹیم میں شامل ہوگئے۔
ظفر عباس
وہ پاکستان کے جانے پہچانے اورسب سے زیادہ متنازعہ صحافی ہیں، وہ معمولی تعطل کے ساتھ ملک کے طویل ترین حالات حاضرہ کے ٹاک شو کیپیٹل ٹاک کی میزبانی کرتے آرہے ہیں، یہ شو جیونیوز پر چلتاہے۔
پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے 1980 کے آخرمیں روزنامہ جنگ لاہور میں رپورٹر کی حیثیت سے نوکری شروع کی، تقریباً دس برس بعد وہ اسلام آبادسے شروع ہونے والے اردواخبارروزنامہ اوصاف کے بانی ایڈیٹربن گئے۔وہاں کام کے دوران انہیں اس وقت عالمی شہرت ملی جب انہوں نے القاعدہ کے رہنمااسامہ بن لادن کا خصوصی انٹرویو کیاتھا،اسامہ بن لادن اس انٹرویوسے چندہفتے قبل امریکہ میں نائن الیون دہشتگردحملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
حامد میر پر اس وقت چندہفتوں کےلئے آں ایئر ہونے پر پابندی لگادی گئی جب جیو نیوز ٹیلی وژن نیٹ ورک نے 2007 میں فوج کی سربراہی میں صدر پرویز مشرف کی حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی ایمرجنسی کی شدید مخالفت کی۔حماد میر بھی 2014 میں ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچے، اس کے فوری بعد اسی سال اپریل میں کراچی میں ان پر نامعلم افراد نے فائرنگ بھی کی، ان کے بھائی عامر میرجو ایک صحافی ہیں، نے اس فائرنگ کاالزام خفیہ ایجنسی کے سربراہ پرلگا دیا، اس کے چند گھنٹے بعد جیو نیوز نے خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی تصویر کے ساتھ اس الزام کو دہرایا۔
حامد میر نے 2018 میں جیونیوز کو چھوڑ کر ایک اور چینل میں شمولیت اختیار کی لیکم چند ہفتوں میں ہی واپس آگئے، وہ روزنامہ جنگ میں ہفتہ وار کالم بھی لکھتے ہیں، ان کا کالم ان کے ٹی وی شو کی طرح کافی مقبول ہے۔
رابطہ
فلور7، لینڈ مارک پلازا
آئی آئی چندری گڑھ روڈ، کراچی
ٹیلی فون: +92-(0)21-2637111
ویب سائٹ: www.geo.tv
معاشی معلومات
آمدن (ملین ڈالرز میں)
85 / ملین ڈالر 8.78 ارب روپے
آپریٹنگ منافع (ملین ڈالرز میں)
8.50 ملین ڈالر / 886 ملین روپے
اشتہارات (مجموعی فنڈنگ کا فیصدی)
82ملین ڈالر/ 8.53 ارب روپے(97.15%)
مارکیٹ میں حصہ
معلومات دستیاب نہیں
مزید معلومات
میٹا ڈیٹا
میڈیاگروپ کو 14 جنوری 2019 کو ایک کوریئر کمپنی اور ای میل کے ذریعہ معلومات کی درخواست بھیجی گئی۔ یکم فروری 2019 کو کوریئر اور 4 فروری 2019 کو ای میل کے ذریعہ یاددہانی درخواست کے باوجود جواب نہیں دیا گیا۔کمپنی کی ملکیت کے ڈھانچہ اور اس کی مالی حیثیت کے حوالے سے آن لائن معلومات کی تصدیق نہیں ہوئی۔
میڈیا گروپ کی اس پروفائل کیلئے مالی معلومات ایک رپورٹ سے اخذ کی گئی ہیں جو انڈیپنڈنٹ میڈٰیاکارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈ نے مالی سال 2018-19 سے متلعق سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) کو جمع کرائی تھیں۔
ذکر کی گئی آمدن اور منافع صرف جیونیوزکیلئے نہیں بلکہ اس میں انڈیپنڈنٹ میڈٰیا کارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈ کی بعض دوسری اخباری مطبوعات بھی شامل ہیں۔