روزنامہ جسارت

روزنامہ جسارت درحقیقت پاکستان کے وسطی شہر ملتان سے مارچ 1970 میں شروع ہوا لیکن کام کے ماحول پر صحافیوں کی ملک گیر ہڑتال کی وجہ سے جلد بند کردیاگیا۔ یہ احتجاج مسلسل 24 روز تک دن رات چلا جس کے نتیجہ میں اس عرصہ میں پاکستان بھر کے اخبارت شائع ہی نہیں ہوئے، ہڑتال ختم ہونے کے بعد صحافی کام پر واپس آئے لیکن روزنامہ جسارت نے اپنی اشاعت ملتان کی بجائے کراچی سے شروع کی۔
چند ماہ بعد یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے ملک بھر میں پہلے پارلیمانی انتخابات منعقد کرانے کااعلان کیا تو روزنامہ جسارت جماعت اسلامی کی سرکاری ترجمان بن گیا، یہ اس وقت سے پاکستان میں دائیں بازو کے اسلام پسند نظریات کے حامی اور بائی بازو کی جماعتوں اور لبرل سیاست کے مخالف کا کردار اداکرتا آرہاہے۔
پھر روزنامہ جسارت آج پاکستان میں اخباریصنعت میں ایک مثال بن گیا، اس کی خبروں کی کوریج اور اداریہ جماعت کے سیاسی موقف کے عین مطابق تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سویلین حکومت جو 1970 کے انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار میں آئی نے 1972 اور 1977 کے درمیان کئی دفعہ اخبار پرپابندی لگائی جس کے نتیجہ میں اخبار ایک سال سے زیادہ عرصہ تک بند رہا۔ 1977 میں ایک فوجی بغاوت میں بھٹو کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے بعد اخبار دوبارہ شروع ہوا لیکن جلد ہی اس کے ایڈیٹر مولانا صلاح الدین اور اس کی اسپانسر جماعت اسلامی کے درمیان جنرل ضیاالحق کی حکومت کی حمایت کرنے یا نہ کرنے پر اختلافات پیدا ہوگئے، اگرچہ ایڈیٹر جنرل ضیا کے بہت قریب تھا جبکہ جماعت ملک میں فوجی حکومت کاخاتمہ اورجمہوری اور انتخابی سیاست کی بحالی چاہتی تھی، جس کے بعد مولانا صلاح الدین اخبار کو چھوڑ کرچلے گئے۔
مولانا کے جانے کے بعد اخبار کے قارئین میں ایک بڑی کمی واقع ہوئی، مولانا صلاح الدین نے ایک ہفت روزہ میگزین کی اشاعت شروع کی تاکہ ملک میں شریعت کے نفاذ کی جمہوری پالیسیوں اورافغانستان میں سویت فوجوں کے ساتھ مغرب اور سعودی عرب کی مدد سے لڑی جانے والی جنگ میں ان کی پالیسی کی حماعت کی جائے
چالیس عشرے سے زائد عرصہ سے روزنامہ جسارت جماعت اسلامی کی سپورٹ کم ہونے کے ساتھ مسلسل اپنے قارئین کی تعداد بھی کھوتا گیا، 1990 میں روزنامہ امت کے آغاز نے بھی اسے ایک بڑا دھچکا پہنچایا اورخصوصاً کراچی میں اس کو اس کے قارئیں کی بڑی تعداد سے محروم کردیا۔
سامعین کا حصہ
1%
ملکیت کی نوعیت
نجی
جغرافیائی کوریج
قومی
رابطے کی نوعیت
زر تعاون (16 روپے)
میڈیا کمپنیاں/گروپس
آزاد پیپرز پرائیویٹ لمیٹڈ
ملکیت کا ڈھانچہ
میڈیاگروپ کو 14 جنوری 2019 کو ایک کوریئر کمپنی اور ای میل کے ذریعہ معلومات کی درخواست بھیجی گئی۔ یکم فروری 2019 کو کوریئر اور 4 فروری 2019 کو ای میل کے ذریعہ یاددہانی درخواست کے باوجود جواب نہیں دیا گیا۔ روزنامہ جسارت کی ملکیت کے ڈھانچہ اور اس کی مالی حیثیت کے حوالے سے آن لائن معلومات کی تصدیق نہیں ہوئی۔
روزنامہ جسارت کی مالک کمپنی آزاد پیپرز پرائیویٹ لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ایک ممبر شاہد ہاشمی اور روزنامہ جسارت کے ادارتی بورڈ کے ایک سینئر رکن مظفر اعجاز سے انٹرویو کئے گئے۔
ووٹ کا حق
Missing Data
انفرادی مالک
گروپ / انفرادی مالک
میاں مسلم پرویز
میاں مسلم پرویز جماعت اسلامی کے ایک سینئر رکن ہیں، انہوں نے 2001 اور 2005 کے درمیان کراچی کی منتخب سٹی کونسل میں اپنی پارٹی کے کونسلرز کی قیادت کی جب جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما نعمت اللہ خان نے سٹی ناظم (میئر) کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ مسلم پرویز نے روزنامہ جسارت کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے طور پر بھی کام کیاہے۔
شاہد ہاشمی
شاہد ہاشمی جماعت اسلامی کے سینئر نظریاتی کارکن ہیں، وہ اکیڈمی تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر ہیں، ان کا تعلق دانشوروں کے گھرانے سے ہے، ان کے والد ایک ادبی جریدہ میں مختصر کہانیاں لکھتے تھے اور رسالے کے ایڈیٹر تھے لیکن ان کا بیٹا بائیں بازو کے نظریات کاحامی نکلا۔
عام معلومات
قیام کا سال
1970
بانی کے جڑے ہوئے مفادات
دائیں بازوکی اسلامی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے سینئر رہنما ہیں، وہ 1960 میں پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی تحریک میں سیاسی طور پر کافی فعال تھے۔
اس عشرے کے آخر میں وہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جماعت اسلامی کے امیر مقرر ہوئے، وہ ایک کھلی سوچ کے حامل تھے، جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت نے انہیں درخواست کی کہ جماعت کے نکتہ نظر کو عوام میں عام کرنے کیلئے روزنامہ اخبار شروع کرنے کیلئے مالی معاونت کریں، ان کے زیادہ ترعطیات کی وجہ سے روزنامہ جسارت کااجرا ہوا۔
سی ای او کے جڑے ہوئے مفادات
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں ایک فزیشن رہے، وہ پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے صدر اور جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر کے عہدوں پر بھی تعینات رہے۔
مدیر اعلی کے جڑے ہوئے مفادات
وہ 1960 اور 1970 کے درمیاں کراچی میں ممتاز اردو اخبار حریت سمیت مختلف اخبارات میں کرچکے تھے، وہ روزنامہ جسارت کے ساتھ 30 برس یا اس سے زائد عرصہ تک منسلک رہ چکے ہیں۔
دیگر اہم لوگوں کے جڑے ہوئے مفادات
دائیں بازو کی نظریاتی شخصیت جماعت اسلامی سے وابستہ تھے، وہ روزنامہ جسارت کے بانی ایڈیٹر تھے، انہوں نے جلد ہی اخبار کو ایک اسلامی قوم پرست نظریہ کاچیمپیئن بنا دیا اور اس وقت کی بائیں بازو کی لبرل سیاست کے ساتھ علمی اور سیاسی محاذوں پر انتہائی جارحانہ انداز اپنایا۔
مولانا صلاح الدین کو ذوالفقار علی بھٹو کا شدید مخالف سمجھا جاتاتھا جو
1971-77 میں حکومت پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ تھے۔جب بھٹو دسمبر 1971 میں صدر پاکستان بنے تو مولانا صلاح الدین نے ان کی طرز سیاست اور پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے متعدد اداریئے لکھے، بھٹو نے روزنامہ جسات کو بند کردیا اور1972 اور 1976 کے درمیان مولانا کو متعدد دفعہ جیل بھجوایا۔
مولانا صلاح الدین نے 1983 میں جماعت اسلامی کی قیادت کے ساتھ شدید اختلافات پر روزنامہ جسارت کو چھوڑ دیا، اگلے ہی سال انہوں نے کراچی سے اپنا ہفت روزہ میگزین تکبیر کی اشاعت کاآغاز کردیا۔
مولانا صلاح الدین متحدہ قومی موومنٹ کی پالیسیوں کے بھی شہید مخالف تھے جو1947 میں بھارت کے مختلف حصوں سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے اردو بولنے والے مہاجرین کی ترجمانی کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کے میگزین کو شہر میں نسلی وسیاسی تشدد کرانے والی جماعت سے اکثر جوڑا گیا اور منظم جرائم کے ساتھ مبینہ طور پر جوڑنے کی رپورٹس بھی چلائی گئیں۔
1994 میں انہیں مبینہ طور پرمتحدہ قومی موومنٹ کے کارندوں کی جانب سے تکبیر کے ہیڈکوارٹرز کے باہر قتل کردیا گیا، ان کے داماد عبدالرفیق افغان نے بعد میں میگزین کے امور سنبھالے، اگرچہ ان کے میگزین کی ملکیت کے معاملہ پرسینئر ادارتی علے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ مختصر چپقلش بھی رہی،بعد میں انہوں نے روزنامہ امت کی بھی بنیاد رکھی۔
رابطہ
سید ہائوس، تیسری منزل، بالمقابل بمبئے ہوٹل بلڈنگ
آئی آئی چندری گڑھ روڈ، کراچی
ٹیلی فون: 92-(0)21-32630391-4
فیکس: 92-(0)21-32629344
ویب سائٹ:www.jasarat.com
معاشی معلومات
آمدن (ملین ڈالرز میں)
ڈیٹا موجود نہیں
آپریٹنگ منافع (ملین ڈالرز میں)
ڈیٹا موجود نہیں
اشتہارات (مجموعی فنڈنگ کا فیصدی)
ڈیٹا موجود نہیں
مارکیٹ میں حصہ
ڈیٹا موجود نہیں
مزید معلومات
میٹا ڈیٹا
The outlet was sent information request on 14 January 2019 through a courier company as well as by email. It did not respond even after a reminder was couriered on 1st February 2019 and emailed on 4 February 2019. No verified online information is available about daily Jasarat’s ownership structure and its financial status.
The data obtained from SECP also does not provide information about its latest financial status.
Interviews were conducted with Shahid Hashmi, a member of board of directors of Azad Papers Private Limited that owns and runs daily Jasarat and with Muzaffar Ejaz, a senior member of daily Jasarat’s editorial board.