ڈیجٹل
حالیہ برسوں میں پاکستان میں ڈیجیٹل معاشرہ نے انٹرنٹ اور آن لائن میڈیا استعمال میں اضافے کی وجہ سے زبردست ترقی پائی ہے۔ دنیا کے دیگر مقامات کی طرح پاکستان میں بھی انٹرنٹ لوگوں کو کھل کر بولنے کی صلاحیت دے رہا ہے۔ آسان، تیز اور سستا انٹرنٹ سوشل میڈیا استعمال کو بڑھا رہا ہے جو لوگوں کے نظریات کی بنیاد پر قومی رائے کی تیاری میں مدد دے رہا ہے۔ یہ پاکستان میں معلومات کے حصول کے روایتی میڈیم کو ’ڈیپ سٹیٹ‘ اور بڑے کاروباریوں کی وجہ سے ساکھ کھو رہا ہے اور ٹی وی اور ریڈیو کی جگہ لے رہا ہے۔ صحافت پر لوگوں کا اعتبار کم ہو رہا ہے۔ طنیا انٹرنٹ میڈیا‘ ہی ’نیا صحافتی میڈیا‘ بنتا جا رہا ہے۔
ترقی کا مقصد لیے فعال ڈیجٹل معاشرہ
نئی صدی کے آغاز سے پاکستان نے ڈیجٹل مواصلات میں انقلاب برپا کیا ہے۔ ٹیلیکام اور میڈیا کے شعبوں میں (تقریبا 135 مقامی ٹی وی چینل اور 200 سے زائد ریڈیو سٹیشن 2019 کے آغاز تک) تیزی سے بڑھتی نئی نسل کی ضروریات پوری کر رہی ہے (51 فیصد یا 20 کروڑ میں سے 10 کروڑ لوگ 25 سال سے کم عمر کے ہیں)
یہ آبادی اور ٹیکنالوجی کے نتیجے میں ڈیجیٹل دائرہ اختیار اتنا بڑھا ہے کہ پاکستان کو دنیا کا سب سے بڑا ڈیجیٹل معاشروں میں سے ایک بنا دیتا ہے۔ 2017 میں گوگل نہ پاکستان کو چار ممالک میں شامل کیا (بھارت، انڈونیشیا اور برازیل) کے ساتھ جو ’دنیا کو اگلے ارب سمارٹ فون استعمال کرنے والے‘ دے گا۔ 2019 کے آغاز پر پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 15 کروڑ سے زیادہ تھی (73 فیصد ٹیلی ڈینسٹی) جس میں سے 6.3 کروڑ سے زائد کے پاس براڈبینڈ اور انٹرنٹ کنکشن اور 6.1 کروڑ 3جی/4 جی استعمال کر رہے ہیں۔
پاکستان میں بڑھتے ہوئے ڈیجٹل دائرے کا مطلب ہے کہ نئے شہری موبائل، انٹرنٹ اور سوشل میڈیا صارف کے طور پر بڑھ رہے ہیں۔ آن لائن ذرائع سے معلومات کی کھپت بڑہ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں حالیہ برسوں میں مرکزی میڈیا گروپس کی جانب سے اپنے آن لائن آپریشن میں وسعت کے ساتھ ساتھ خبروں اور حالات حاضرہ پر مبنی پلیٹ فارمز ڈرامائی انداز میں بڑھے رہے ہیں۔ اس سے آذادی اظہار، معلومات تک رسائی، میڈیا میں تنوع اور کثیریت میں وسعت کو مدد مل رہے ہے۔ اکثر میڈیا گروپس اور ان کی نشریات یا اشاعت جیسے کہ روزنامہ ڈان، جنگ اور نوآئے وقت کے آن لائن پلیٹ فارمز ہیں جو آن لائن صارفین کی بڑی تعداد کی ضروریات پور کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے کہ فیس بک، یو ٹیوب، ٹوئٹر اور انسٹاگرام کے پاکستان میں دسیوں ہزار صارف ہیں جو تیزی سے آن لائن معلومات اور شہری صحافت دنیا بھر کی طرح یہاں بھی تبدیلیاں لا رہا ہے۔ حکومت وفاق اور چاروں صوبوں میں معلومات تک رسائی کے قوانین (آر ٹی آئی) کے ذریعے معلومات مہیا کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ یہ قانون تمام سرکاری اداروں کو (جن میں وزارتیں، کارپوریشنز اور دیگر دفاتر میں) پابند بناتی ہے کہ وہ سرکاری ویب سائٹس چلائیں اور 39 اقسام کی معلومات آن لائن شیئر کریں۔
پاکستان کی انٹرنٹ، ٹیلیکام اور موبائل مارکیٹ پر بین القوامی چھاپ
پاکستان میں انٹرنٹ، لینڈ لائن اور موبائل ٹیلیکمیونیکشن مارکیٹ پر اکثر بین القوامی کمپنیاں حاوی ہیں۔ ملک میں چار موبائل سروس کمپنیاں ہیں – تمام بین القوامی، جن میں ناروے کی ٹیلی نار، مصر کی موبی لنک، متحدہ عرب امارات کی یوفون اور چین کی زانگ۔ یہ کمپنیاں ملک میں انٹرنٹ کے استعمال کے اعتبار سے سب سے بڑی کمپنیاں ہیں۔ سب کو پاکستان ٹیلیکمیونکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) لائسنس جاری کرتی ہے جس کے پاکستان بھر میں دفاتر ہیں اور ملک کا وسیع علاقہ کور کرتی ہے۔ کم موثر لینڈ لائن سروس اکثر مقامی آئی ایس پیز مہیا کرتی ہیں جو تیز انٹرنٹ، ٹیلیفون اور ٹی وی سروس اکٹھی مہیا کرتی ہیں۔ اہم کمپنیوں میں نیا ٹیل، سائبر نیٹ، وائی ٹرائب، کیوبی، نیکس لنکس اور پاک ڈیٹا کام شامل ہیں۔
2019 کے آغاز پر جاز (پاکستان موبائل کمینیکیشن لیمٹڈ، پی ایم سی ایل) کا مارکیٹ میں حصہ 36.7 فیصد تھا یعنی پانچ کروڑ اکسٹھ لاکھ صارف رکھتی ہے۔ اس کے بعد ٹیلی نار ہے جس کا حصہ 28.3 فیصد یعنی چار کروڑ 33 لاکھ صارف، زانگ (چائنہ موبائل پاکستان) کا 20.9 فیصد اور 3 کروڑ 19 لاکھ صارف اور یو فون (پاک ٹیلی کام موبائل لیمٹڈ) 13.9 فیصد اور دو کروڑ 13 لاکھ صارف ہیں۔ 2014 میں تھری جی کے لائسنس جاز، ٹیلی نار، یو فون اور زانگ کو دیا گیا۔ زانگ کو چار جی کا لائسنس بھی دیا گیا۔ 2016 میں ٹیلی نار کو چار جی کا لائسنس ملا اور جاز کو 2017 میں۔ مضبوط بین القوامی موجودگی ان سروسز کے معیار کی بہتری کو یقینی بناتی ہے، تقریبا مسلسل موبائل ٹیلی کام سروسز مہیا کرنے سے چلتے پھرتے اس کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے معلومات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے اور موبائل دوست فارمیٹس تو توجہ کا سبب بنے ہیں تاکہ سپلائی کو مضبوط کیا جاسکے۔
سپلائی کے حوالے سے دوبارہ بین القوامی کپمنیاں پاکستانی آن لائن پر حاوی ہیں، جیسے کہ ویب سرچ میں گوگل۔ سوشل میڈیا میں فیں بک سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے پاکستان میں۔ 2019 میں اس کا استعمال 87.96 فیصد تھا جبکہ ٹویٹر دوسرے نمبر پر 4.73 فیصد، پنٹریسٹ 2.59 فیصد، یو ٹیوب 2.05 فیصد اور انسٹاگرام 2 فیصد۔ مقامی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تقریبا وجود نہیں رکھتے ہیں۔ ان بین القوامی پلیرز میں سے کوئی بھی خبری مواد کی تیاری نہیں کرتے ہیں۔ سام سنگ اور ہواوے موبائل سیٹ کی مارکیٹ میں سب سے بڑی کمپنیاں ہیں۔
ٹیک کمپنیوں، میڈیا اور حکومت کے درمیان تعاون
پاکستان میں ساڑھے تین کروڑ فیس بک اور 35 لاکھ ٹویئٹر صارفین 2018 میں تھے۔ حالیہ برسوں میں سینسرشپ کے بڑھنے سے یہ دو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خود خبروں کی ذریع شہری صحافت کی وجہ سے بن گئے ہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر بعض مقبول ترین افراد صحافی ہیں جن میں سے چند کے لاکھوں میں فالورز ہیں۔ مرکزی میڈیا تنظیمیں بھی سوشل میڈیا اکاونٹس رکھتی ہیں جن کے اپنے لاکھوں میں فالورز ہیں۔ تاہم ان ٹیک کمپنیوں اور میڈیا کے درمیان کوئی تعاون نہیں ہے اگرچہ مختلف اوقات میں ٹی وی چینلز اور موبائل ٹیلیفنی کمپنیوں جیسے کہ ٹیلی نار اور جاز کے درمیان تھا جس کے تحت موبائل پر سستے نرخ پر لائیو ٹی وی مہیا کیا جاتا تھا۔ یہ 2013 میں قبل از تھری جی کی بات ہے۔ اس کے بعد سے تھری جی اور فور جی کی وسیع پیمانے پر دستیابی نے براہ راست ٹی وی تک رسائی موبائل اور ٹیبلٹ کے ذریعے آسان بنا دی بعیر کسی اضافی اخراجات کے۔
پاکستان میں جولائی 2018 کے عام انتخابات تک، فیس بک نے ووٹرز کو اپنے حلقوں کی نشاندہی کرنے میں مدد دینے کے لیے ایک پروگرام شروع کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے ووٹ رجسٹرڈ تھے۔ یہ سماجی میڈیا کمپنی اور انتخابی کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے درمیان ایک رسمی تعاون کے ذریعے کیا گیا تھا جس کے ذریعہ فیس بک کے صارفین کو پاپ اپ کے ذریعہ مطلع کیا گیا تھا کہ ان کے ووٹ ان کے نیوز فیڈ میں رجسٹر ہیں۔ اضافی طور پر، انتخابات سے قبل، فیس بک نے اعلان کیا کہ ( iجعلی خبروں کے امکانات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ پلیٹ فارم پر غلط استعمال اور نفرت سے متعلق بات چیت کو روکنے کے، شفافی بڑھانے کے لئے ای سی سی کی تربیت، شہری شمولیت کو فروغ دینا، او اس کے اشتہارات کی پالیسیوں کو نافذ کرنے اور اشتہارات اور صفحے کے شفافیت کو بہتر بنانا تھاG
متنازع ریگولیٹری نظام
پاکستان میں ویب سائٹس کی رجسٹریشن کی کوئی شرط نہیں ہے اور آن لائن مواد کے لیے کوئی نگرانی کا نظام بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے بڑی تعداد میں میڈیا اور حالات حاضرہ کی مقامی ویب سائٹس چل پڑیں جو ناصرف آف لائن میڈیا کی آن لائن شکل ہیں بلکہ مخصوص اور مقبول صرف آن لائن مواد کی ہم سب اور سجاگ جیسے پلیٹ فارم بھی اس میں شامل ہیں۔ پی ٹے اے آن لائن مواد پر بھی نظر رکھتا ہے اور ایسے مواد یا ویب سائٹ کو بلاک کرنے کی پالیسی چلاتا ہے جس میں قانون کے مطابق توہین مذہب یا فحش مواد چھپا ہو۔ 2017-18 میں پی ٹی اے نے آٹھ لاکھ ویب سائٹس اور ویب صفحات بلاک کئے جو ’غیرموضوع اور قاب اعتراض مواد‘ تھا۔ یہ اعدادوشمار پی ٹی اے نے 2018 کے اواخر میں سینٹ کی آئی ٹی اور ٹیلی کام سے متعلق قائمہ کمیٹی کو بتائے۔ پی ٹی اے کے مطابق بلاک کئے جانے والے صفحات اور ویڈیو چینلز میں ’ریاست مخالف، عدلیہ مخالف، توہین مذہب، ہتک عزت، فحش، فرقہ ورانہ/نفرت انگیز تقاریر‘ شامل تھیں۔ اس میں سے اکثر مواد فیس کئی دیگر کے علاوہ بک، ٹوئٹر، ڈیلی موشن اور یوٹیوب پر پایا گیا۔ پی ٹی اے کا فیس بک کے ساتھ ایک معاہدہ ہے جس کے تحت وہ پاکستان الیکٹرانک سائبر کرائمز ایکٹ (پی ای سی اے) کی مبینہ خلاف ورزی والے صفحات/مواد بلاک کرسکتی ہے۔ وہ گوگل، ٹوئٹر اور یوٹیوب کے ساتھ بھی اسی قسم کے طریقہ کار کے لیے مذاکرات کر رہی ہے۔ پی ٹی اے عوام سے ملنے والی اس ای میل پر (info[at]pta.gov.pk) پر شکایات پر بلاک کرتی ہے۔
مثبت پہلو کو اگر دیکھیں تو پاکستان میں 2014 سے سٹارٹ اپ ماحول میں ٹیک حبز، تعلیمی اداروں، موبائل آپریٹروں اور سرمایہ کاروں نے ان سٹاٹ اپس کے فروع میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جی ایس ایم اے ایکوسسٹم ایکسلیٹر پروگرام ٹیک حب لینڈ سکیپنگ تحقیق کے مطابق پاکستان نے 2016 (26 ٹیک حبز) اور 2018 (36 ٹیک حبز) 30 فیصد فروغ دیکھا گیا جو اسے بھارت کے بعد جنوبی ایشیا میں دوسرا بڑا ٹیک ایکو سسٹم بناتا ہے۔ ان میں سے اکثر تنظیمیں پاکستان کے تین بڑے شہروں اور ٹیک مراکز – اسلام آباد، لاہور اور کراچی – میں ہیں۔ اس قسم کے ٹیک ایکو سسٹم میں سافٹ وئر تیار کرنے والے اصل قوت ہیں۔ پاکستان تین لاکھ ساٹھ ہزار ساف وئیر بنانے کا مسکن ہے جہاں ہر سال دس ہزار آئی ٹی گریجویٹ تیار ہو رہے ہیں۔ پاکستان دنیا میں کنٹریکٹر پلیٹ فارم فری لانسر ڈاٹ کام پر مہارت مہیا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔