روزنامہ ایکسپریس
جب لیکسن گروپ نے 1998 میں روزنامہ ایکسریس شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کا ہیڈکوارٹرز کراچی کی بجائے لاہور میں قائم کیاگیا، جہاں دوسرے بڑے اخبارات کے دفاتر بھی قائم ہیں۔ یہ اقدام یہ سوچ کر کیاگیا کہ صوبہ ہنجاب میں جس کا دارالحکومت لاہور ہے، کراچی کی نسبت اردو اخبارات کے قارئین کہیں زیادہ ہیں۔ یہ آئیڈیا کارگر ثابت ہوا اور روزنامہ ایکسپریس نے ایک بڑی تعداد میں قارئین کی توجہ حاصل کرلی۔
دوسرا سخت فیصلہ یہ تھا کہ اخبارات کے پبلشرز کو اخبارات کے ایڈیشن نہ صرف بڑے شہروں کراچی، لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد سے شائع کرنے تھے بلکہ بعض دوسرے بڑے شہر خصوصاً پنجاب میں ملتان، سرگردھا، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور رحیم یارخان سے بھی اخبارات کی اشاعت شروع کی گئی۔ اس نے فیصلہ کو درست ثابت کیا جبکہ ان شہرون میں قارئین کی بڑی تعداد نے اس ایک اخبارجس میں مقامی خبروں کوزیادہ اہمیت دی جاتی ہے کے مقابلے میں طویل فاصلے سے آنے والے اخبارات کوپڑھنا چھوڑ دیا۔
قارئین کی توجہ حاصل کرنے کیلئے تیسری حکمت عملی یہ تھی کہ قارئین کی بڑی تعداد رکھنے والے اخباری کالم نگاروں کی بڑی تنخواہوں کے عوض خدمات حاصل کی جائیں۔ ان میں سے اکثریت نے روزنامہ جنگ اور روزنامہ نوائے وقت سمیت پرانے اخبارت کو خیرآباد کہا اور اپنے قارئین کی بڑی تعداد کے ساتھ روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہوگئے۔
روزنامہ ایکسپریس کا آغازاتفاقیہ طور پرایک ایسے موقع پرکیا گیا تھا جب 1990 کی دہائی کے آخر میں پاکستان کے پرانے اور بڑے اخباری ادارے جنگ گروپ اور وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کے درمیان ایک محاذآرائی چل رہی تھی۔اس لڑائی کے نتیجہ میں ملک کے واحد سب سے زیادہ فروخت ہونے والے اخبارروزنامہ جنگ کو متعدد مالی سمیت دوسری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اوراس نے اپنے صفحات کم اور خبروں کی کوریج مختصر کردی۔روزنامہ ایکسپریس نے اس صورتحال کا پورا فائدہ اٹھایا اور لیکن 2000 کے شروع میں صورتحال بہتر ہونے پر روزنامہ جنگ پنجاب میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار تھا۔
روزنامہ ایکسپریس کی مصلحت پرمبنی اور مارکیٹ دوست ادارتی پالیسی ہے اور کبھی بھی حالات حاضرہ کے ساتھ تفریح کوشامل کرنے سے ہچکچاہٹ کامظاہرہ نہیں کیا۔ یہ اخبار سیاسی اور سماجی حوالے سے قدامت پسند موقف جبکہ سیکیورٹی اور خفیہ اداروں کے حوالے سے اخلاقی حمایت رکھتا ہے،
بعض اوقات یہ دونوں پہلو نیوز روم کے اندر شدید کانٹ چھانٹ کے بعد روزنامہ ایکسپریس اور انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے مواد کی زینت بھی بنتے ہیں۔ یہ سینسرشپ سلطان علی لاکھانی کی براہ راست نگرانی میں ہوتی ہے جو ادارتی موادکی باریکی سے نمٹنے کے حوالے سے مشہورہیں خاص طور پراس بات کویقینی بنانے کیلئے کہ وہ اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں۔حتیٰ کہ نیویارک ٹائمز کے انٹرنیشنل ایڈیشن جو ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھ مقامی قارئین میں تقسیم کیاجاتاہے اس میں بھی ایسی ہی سینسرشپ چل رہی ہے۔بعض اوقات پورے مضامین، نیوز رپورٹس اورحتیٰ کہ تصاویر بھی اس سے ہٹا دی جاتی ہیں کیونکہ اس سے قومی سلامتی کو نقصان یا مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔
سامعین کا حصہ
18.00%
ملکیت کی نوعیت
نجی
جغرافیائی کوریج
قومی
رابطے کی نوعیت
زرتعاون (25 روپے)
میڈیا کمپنیاں/گروپس
ایکسپریس میڈیا گروپ
ملکیت کا ڈھانچہ
روزنامہ ایکسپریس ، ایکسپریس پبلی کیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ کی ملکیت ہے، سلطان علی لاکھانی اس کے 99.8%حصص کے مالک ہیں، بلال علی لاکھانی (0.02%)اور اعجاز الحق جوروزنامہ ایکسپریس کے مینجنگ ایڈیٹر اور اس کی نیوز ویب سائٹ کے چیف آپریٹنگ آفیسر ہیں کے (0.18%)حصص ہیں۔
ایکسپریس پبلی کیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ ایکسپریس میڈیا گروپ کا حصہ ہے جو پھر لیکسن گروپ کاحصہ ہے۔
ووٹ کا حق
ڈیٹا موجود نہیں
انفرادی مالک
عام معلومات
قیام کا سال
1998
بانی کے جڑے ہوئے مفادات
بھارت کے موجودہ صوبہ مہاراشٹرکے ایک قصبہ گوندیا میں 1948 میں پیدا ہوئے، ان کی فیملی کراچی منتقل ہوگئی جہں ان کے والد حسن علی نے 1954 میں اپنا کاروبار قائم کیا، وقت گزرنے کے ساتھ یہ کاروبار پھیلتا گیا اور اب لاکھانی گروپ پاکستان میں تجارتی اور صنعتی مصنوعات کا سب سے بڑا گروپ ہے۔
سلطان علی لاکھانی نے 1988 تک گروپ کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کیا اور اس وقت اس کے مشیر کے طور پر کام کررہے ہیں،وہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسربھی ہیں جو مکمل طور پر لیکسن گروپ کی ملکیت ہے،اس میں ٹیلی وژن میڈیا نیٹ ورک پرائیویٹ لمیٹڈ( جوایکسپریس نیوز اورایکسپریس انٹرٹینمنٹ سمیت بعض ٹی وی چینلز کی مالک اور انہیں چلاتی ہے۔ایکسپریس پبلی کیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ( جواردو اخبار روزنامہ ایکسپریس، انگریزی اخبار ڈیلی ایکسپریس ٹریبیون اورسندھی زبان کااخبار سندھ ایکسپریس چلاتی ہے) اور ایکسپریس ڈیجیٹل پرائیویٹ لمیٹڈ شامل ہیں( جو تین بڑی نیوز ویب سائٹس www.express.com.pk، www.express.pkاورwww.tribune.com.pkچلاتی ہے)۔
سلطان علی لاکھانی طویل عرصہ سے پاکستان میں میکسیکو کے اعزازی قونصلر ہیں، ان کی سیاست میں بھی گہری دلچپسی ہے اور 1988 اور 1994 کے درمیان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے ایک مرتبہ بینک فراڈکرنے کے جرم کا بھرپورطریقے سے دفاع کیا جس کے بعد قومی احتساب بیورو نے 2000 میں انہیں گرفتار کرلیا او نو ماہ تک قید میں رکھا۔
سی ای او کے جڑے ہوئے مفادات
ایکسپریس میڈیا گروپ اور لیکسن گروپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسرہیں۔
مدیر اعلی کے جڑے ہوئے مفادات
1988 میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ سے گریجویشن کیا اور 1989 میں روزنامہ نوائے وقت لاہور میں ایک زیرتربیت سب ایڈیٹر کے طورپر صحافتی کیریئر کا آغازکیا، دس سال کے عرصہ کے بعد وہ نیوز ایڈیٹر بن گئے۔
2002 میں انہوں نے نوائے وقت کو چھوڑا اور روزنامہ ایکسپریس میں نیوزایڈیٹر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی،ایک سال بعد انہیں اخبار کا ایڈیٹر بنا دیا گیا اور ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے دوسرے نیوز پلیٹ فارم شروع کرنے کے بعد انہیں گروپ ایڈیٹر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
دیگر اہم لوگوں کے جڑے ہوئے مفادات
سلطان علی لاکھانی کا بھتیجا ہے جو لیکسن گروپ آف کمپنیزکے حصہ کے طور پر سائبر نیٹ کو چلاتا ہے جو برانڈ Stormfiberکے تحت انٹرنیٹ، چیبل ٹیلی وژن اور فون کی سروسز مہیا کرتی ہے۔ اس کی شادی ڈان میڈیا گروپ کی ڈپٹی چیف ایگزیکٹو آفیسرناز آفرین سہگل کے ساتھ ہوئی جو ڈیلی ڈان، اس کی ویب سائٹ ڈان ڈاٹ کام اور بعض دوسری پبلی کیشنز کے مالک ہیں۔ نازآفرین سہگل بھی ڈان نیوز ٹیلی وژن اور سٹیFM 89 ریڈیواسٹیشن کی چیف آپریٹںگ آفیسر ہیں۔
امریکہ کے ممتاز Yale اسکول آف مینجمنٹ سے تعلیم یافتہ ہیں، انہوں نے کراچی سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے تحت انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی اشاعت اور اس کی ویب سائٹ www.tribune.com.pkشروع کرکے اپنے پروفیشنل کیریئر کاآغاز کیا، وہ سلطان علی لاکھانی کے بیٹے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس کےبانی ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے دو سشروں سے زائد عرصہ تک روزنامہ نوائے وقت کے ساتھ وابستہ رہے، وہ ایک وسیع تجربے کے حامل صحافی تھے،قارئین کی ایک بڑی تعداد ان کے روزانہ چھپنے والے کالموں کوپڑھتی تھی۔
عباس اطہر نے 1970 کی دہائی میں ایک صحافی کے طور پر اس وقت نام کمایا جب وہ لاہور سے شائع ہونے والے بائیں بازو اورجمہوریت کے حامی گروپ کی ملکیت ایک روزنامہ آزاد کے نیوز ایڈیٹر تھے،وہ اخبار کے لے آئوٹ اور ڈیزائن کے ساتھ بہادری سے کھیلتے اور اکثر اخبار کے پہلے صفحے پر اکیلی تصویر کے ساتھ جلی حروف والی تیز اور مصالحہ دار سرخی لگاتے جو اس وقت کے تقریباً ہر دوسرے اخبارنے بھی ایسی ہی فوٹواور شہ سرخیاں لگانا شروع کردیں۔
روزنامہ آزادمیں ان کی بعض شہ سرخیاں پاکستان کی تاریخ کاحصہ بن گئی ہیں۔ ان میں سے ایک 1971 میں ذوالفقار علی بھٹو کے جلسہ عام سے خطاب کے حوالے سے اخبار کے ایڈیشن میں شائع ہوئی جس کے فوری بعد وہ ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ عباس اطہر نے " ادھر ہم ادھر تم " کی کیا کمال سرخی نکال کر ذوالفقار بھٹو کی پوری تقریر کو اپنی سرخی میں سمو دیا اوربھٹو کی آواز کی ایسا بنا دیا کہ جیسے وہ ااقتدار میں آنے کیلئے مشرقی پاکستان (وہاں) کی علیحدگی کی توثیق کررہے ہوں اور پھر مغربی پاکستان (یہاں) بن گیا
رابطہ
پلاٹ نمبر 5، ایکسپریس وے
آف کورنگی روڈ، کراچی
ٹیلی فون: +92-21-35800051-58
فیکس:+92-21-35800050-5803835
ویب سائٹ: www.express.com.pk
معاشی معلومات
آمدن (ملین ڈالرز میں)
ڈیٹا موجود نہیں
آپریٹنگ منافع (ملین ڈالرز میں)
ڈیٹا موجود نہیں
اشتہارات (مجموعی فنڈنگ کا فیصدی)
ڈیٹا موجود نہیں
مارکیٹ میں حصہ
ڈیٹا موجود نہیں
مزید معلومات
میٹا ڈیٹا
میڈیاگروپ کو15 جنوری 2019 کو ایک کوریئر کمپنی اور4 فروری کو ای میل کے ذریعہ معلومات کی درخواست بھیجی گئی۔ یکم فروری 2019 کو کوریئر اور 4 فروری 2019 کو ای میل کے ذریعہ یاددہانی درخواست کے باوجود جواب نہیں دیا گیا۔
اس میڈیا گروپ کی ملکیت کے ڈھانچہ اور اس کی مالی حیثیت سے متعلق آن لائن معلومات کی تصدیق نہیں کی گئی۔
2000 کے اوائل میں دو آن لائن نیوز لنکس میں بتایا گیا کہ میڈیا گروپ دراصل سینچری پبلیکیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ کی ملکیت ہے لیکن بعد میں تحقیقات کرنے پر پتہ چلا کہ یہ کمپنی اب نہیں ہے تاہم یہ اب ایکسپریس پبلی کیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ کی ملکیت ہے اس کے بارے میں واضح نہیں ہے کیسے کب اور کیوں ملکیت ایک کمپنی سے دوسری کمپنی کو منتقل کردی گئی۔ ایس ای سی پی س حاصل کیا گیا ڈیٹا صرف اس کی ملکیت کے ڈھانچہ کو ظاہر کرتا ہے لیکن اس کی موجودہ مالی حیثٰیت سے متعلق کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔.